نماز کی اہمیت اور فضیلت
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور کفر کے درمیان (رکاوٹ یا فاصلہ) نماز کا ترک کردینا ہے۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم569 (
یہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ آدمی کے کافر یا مؤمن ہونے کی ظاہری علامت نماز کا ترک یا ادا کرنا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں بھی بیان ہوئی ہے کہ جو شخص مسلمان ہونے کا دعویدار ہو، اسے اسٹیٹ اور ریاست کی حد تک اسی وقت تک مسلمان تسلیم کیا جائے گا جب تک وہ نماز کا اہتمام کرتا رہے گا۔ یعنی ظاہری طور پر نماز کی ادائیگی کسی شخص کے مسلمان ہونے کی علامت و شہادت ہے۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اسلام اور ایمان کو خیر باد کہہ چکا ہے۔
نماز ہی کی اہمیت و فضیلت پر مشکوٰۃ کی اگلی روایت بھی کافی کچھ روشنی ڈالتی ہے:
’’عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (دن بھر میں) پانچ نمازیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (اپنے بندوں پر) فرض کیا ہے۔ جو شخص (ان کے لیے) اچھی طرح وضو کرے گا اور وقت پر (یہ) نمازیں ادا کرے گا۔ ان کے رکوع (و سجود) کو اچھی طرح خشوع و خضوع کے ساتھ بجالائے گا، اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر عہد ہوگا کہ اس (کے گناہ) بخش دے۔ اور جو کوئی ایسا نہ کرے گا اس کے لیے اللہ پر کوئی عہد نہ ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو اس (کے گناہ) بخش دے گا اور چاہے گا تو (ان کی پاداش میں اسے) عذاب دے گا۔‘‘، (مشکوٰۃ، رقم570(
یہ روایت بتاتی ہے کہ روز مرہ کی پانچ فرض نمازوں کی کیا اہمیت اور فضیلت ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان کے لیے اہتمام سے وضو کرے، وقت پر نماز ادا کرے، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع و سجود بجالائے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے بندے کے لیے اپنے اوپر یہ ذمے داری لے رکھی ہے کہ وہ اس کی بخشش فرمائیں گے اور اس کے گناہوں اور خطاؤں کو معاف کردیں گے۔
آگے فرمایا کہ جس نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا یعنی نمازوں کو کوئی اہمیت نہ دی اور ان کی ادائیگی کے معاملے میں غفلت و لاپرواہی برتی، ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اسے ضرور مغفرت عطا فرمائیں گے۔ اس کا معاملہ ان کی مرضی پر ہوگا، چاہیں گے تو بخش دیں گے اور چاہیں گے تو مؤاخذہ اور گرفت فرما کر ایسے شخص کو اس کی بداعمالیوں پر عذاب دیں گے۔
گویا کہ پنج وقتہ نمازوں کی بااہتمام، خشوع و خضوع کے ساتھ ادائیگی بندے اور خدا کے درمیان ایک معاہدے کو وجود میں لاتی ہے۔ نماز میں بندہ اپنے سارے وجود اور پورے دل کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جاتا ہے۔ اپنی بندگی اور اس کی خدائی کا اعتراف کرتا ہے۔ عاجزانہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنی محتاجی اور اس کی عظمت و کبریائی کا اقرار کرتا ہے۔ خدا کے روبرو توبہ بجالاکر اپنے گناہوں کی معافی اور اس کی بخشش و مغفرت طلب کرتا ہے۔ جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے بخشنے اور معاف کرنے کا عہد فرمالیتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز کتنی غیرمعمولی عبادت اور کیسی عظمت والی چیز ہے۔ یہ خداوند کائنات کے دربار میں حاضری اور اس کے ہاں سے اپنی بخشش و نجات کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت اہم ذریعہ ہے۔
جو لوگ نماز جیسی عبادت کو ظاہری رسم اور ناقابل فہم اٹھ بیٹھ کہہ کر اس کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نماز میں انسان کا جسم اور اعضا نہیں بلکہ اصلاً اس کا دل اور روح خدا کے سامنے جھکتے اور اس کا سارا وجود عملاً اس کی پاکی اور بڑائی کا اعتراف کرتا ہے۔ اس عمل کی یہی حقیقت اسے ایمان و کفر کے درمیاں حد فاصل بناتی اور اس کی پابندی کا التزام و اہتمام کرنے والے انسان کو خدا کے عفو و کرم اور نعمتوں اور بخششوں کا حقدار بنادیتی ہے۔
A look from you is as blinding as the sun
As stunning as your eyes I lose myself in
A look from you is as pure as the clear blue sky
When I'm with you
Every minute I'm not around you
I feel like I left something behind.
Every time I'm not looking at you
I feel like I am blind
~
"Sade Jism Ne Vakh Vich Is Duniya ,
Chalo Maniya Tahiyo Aeh Duriya Ne
Par Milde Jad Appan Har Janam De Vich,
Fer Is Janam Das Ki Majboriyan Ne"